Arshi khan

Add To collaction

14-Apr-2022 لیکھنی کی کہانی -منزل عشق قسط 15

منزل عشق قسط 15
ہانیہ نے سہم کر اس شخص کو دیکھا جو اس کے ماتھے پر بندوق رکھ کر کھڑا تھا۔
"ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا تم میرا بہادر بچہ ہو ہانیہ،خوف تمہیں کمزور کرے گا اور بہادری تمہاری طاقت بنے گی۔"
وجدان کی کہی بات یاد کر کے ہانیہ میں ایک مت سی آئی تھی۔زر خان نے جیسے ہی گولی چلانا چاہی ہانیہ نے اپنی پوری طاقت سے گھٹنا زر خان کے پیٹ میں مارا  اور ٹانگ مار کر اس کے ہاتھ سے وہ بندوق بھی گرا دی۔
پھر اس نے پوری طاقت لگا کر اپنے آپ کو ان آدمیوں سے چھڑایا اور جلدی سے فرش پر گری پسٹل پکڑ کر دونوں آدمیوں کی ٹانگ میں گولی مار دی۔
انس کے ساتھ کھڑے آدمی نے اپنی بندوق ہانیہ پر تانی تو انس نے بھی ہمت کرتے ہوئے اپنے آپ کو ان آدمیوں کی گرفت سے چھڑایا اور پاؤں کے پاس سے چاقو نکال کر اس آدمی کی کمر میں گاڑ دیا جو ہانیہ پر بندوق تانے کھڑا تھا۔
"مار دو دونوں کمینوں کو۔۔۔"
زرخان جو زمین پر بیٹھا تھا اپنا پیٹ پکڑ کر چلایا لیکن اس سے پہلے کہ اس کے آدمی کچھ کر پاتے انس نے ایک کی گردن اپنے بازو میں دبوچ کر اسے جھٹکا دیا تو وہ بھی زمین پر ڈھے گیا۔
دوسرے شخص نے انس پر حملہ کرنا چاہا تو ہانیہ نے ایک گولی اسکے کندھے پر ماری۔
زرخان اب حیرت سے اپنے چھ آدمیوں کو دیکھ رہا تھا جو سب زمین پر ڈھیر ہوئے کراہ رہے تھے۔
انس زرخان کے پاس آیا اور اسے گریبان سے پکڑ کر کھڑا کیا۔
"بتا راگا کہاں ہے؟"
انس نے ایک مکا مارتے ہوئے پوچھا تو زرخان گھبرا گیا۔
"نننن۔۔۔۔نہیں جانتا میں نہیں جانتا۔۔۔"
یہ جواب سن کر انس کا پارہ مزید ہائی ہو چکا تھا اسی لیے اس نے دو زور دار گھونسے اس کے منہ پر مارے۔
"قسم کھاتا ہوں مجھے نہیں پتہ۔۔۔۔ممم۔۔۔میں بس کام کرتا ہوں اس کے لیے جو بھی وہ کہتا ہے ۔۔۔۔وہ کہاں رہتا ہے یہ بس خاص آدمی جانتے ہیں۔۔۔اور وہ ہمیں بھی راگا کا ٹھکانہ نہیں بتاتے۔۔۔"
زرخان خوف کے مارے بولتا چلا گیا کیونکہ اب ہانیہ نے پسٹل کا رخ اس کی طرف کیا ہوا تھا۔
"تو پھر ہمیں مار کر تم یہ خبر راگا کو کیسے دینے والے تھے؟"ہانیہ نے سوال کیا۔
"اااا۔۔۔اسکا آدمی کال مجھ سے ملنے آتا ہے اسی کے ذریعے بتانا تھا میں نے یہ راگا کو۔۔۔"
ہانیہ نے اس جواب پر انس کی طرف دیکھا جیسے کہ تسلی کرنا چاہ رہی ہو کہ وہ شخص سچ کہہ رہا تھا یا جھوٹ۔
"کہاں ملنا تھا اس کال نے تم سے ؟"
انس نے اسے مزید سختی سے جکڑتے ہوئے پوچھا۔
"وو۔۔۔وہ کال ہی فیصلہ کرتا ہے کہ کہاں ملے گا ۔۔۔ اور پھر ہمیں پیغام پہنچاتا ہے ۔۔۔۔میں سچ کہہ رہا ہوں اس سے زیادہ کچھ نہیں جانتا۔"
انس نے اپنا ہاتھ ہانیہ کی جانب کیا تو ہانیہ نے ہاتھ میں پکڑا پسٹل اسے پکڑا دیا۔
"سسس۔۔۔سچ کہہ رہا ہوں قسم سے۔۔۔"
ہنس کے ہاتھ میں بندوق دیکھ کر زرخان خوف سے کانپنے لگا تھا۔لیکن انس نے بس اس پسٹل کی پشت اس کے سر میں ماری تو وہ بے ہوش ہو کر زمین پر گر گیا۔
"چلو۔۔۔"
انس نے ہانیہ سے کہا تو اس نے اپنا بیگ پکڑا اور اس کے ساتھ وہاں سے آ گئی۔
"یہ کس مصیبت میں پھنس گئے تھے ہم ، مجھے تو یہ سمجھ نہیں آتا کہ آپ کس قسم کے انسپکٹر ہیں کسی پر بھی بھروسہ کر بیٹھے۔۔۔"
ہانیہ نے منہ بنا کر کہا اور ارد گرد دیکھنے لگی جہاں رات بہت گہری ہو چکی تھی۔
"تمہارے پاس کوئی بہتر آپشن تھا میری جگہ اگر تم ہوتی تو تم بھی یہی کرتی۔۔۔"
اس کی بات پر ہانیہ نے منہ بنایا۔
"ہاں لیکن فائیدہ کیا ہوا راگا کا تو پھر سے کچھ پتہ نہیں لگا۔"ہانیہ نے دانت کچکچا کر کہا۔
"ایک بات کا پتہ چلا کہ زر خان نے ہمیں یہاں سکردو بلایا اور راگا کا آدمی بھی جب چاہتا ہے یہاں اس سے ملنے آ جاتا ہے اس کا مطلب وہ سکردو کے قریب ہی موجود پہاڑوں میں کہیں رہتے ہیں۔"
ہانیہ نے اسکی بات سمجھتے ہوئے ہاں میں سر ہلایا۔
"لیکن اب ہم لوگ واپس کیسے جائیں گے ؟"
"صاف ظاہر ہے پیدل چل کر اور اگر ذرا تیز چلیں گے تو صبح تک یہاں سے نکل ہی جائیں گے۔۔۔۔۔"
انس نے اپنی سمارٹ واچ کی طرف دیکھا جہاں رات کے گیارہ بج رہے تھے۔
"واہ اب اسی کی کمی تھی اور اگر وہ لوگ ہمارے پیچھے آ گئے تو؟"
"تو گن ہے نا تمہارے پاس۔۔۔"
انس نے ہنس کے ہاتھ کی جانب بھی اشارہ کیا جہاں اس نے زرخان کا پسٹل پکڑا ہوا تھا۔
"بلٹ نہیں ہے اس میں۔۔۔"
"یہ تمہیں پتا ہے کہ اس میں بلٹ نہیں ہے،مجھے پتہ ہے لیکن انہیں تو نہیں پتہ نا۔۔۔"
انس نے آنکھ دبا کر کہا اور اسکا ہاتھ پکڑ کر واپس چل پڑا۔کچھ بھی ہو جاتا صبح ہونے سے پہلے انہیں اس پہاڑی سلسے سے نکلنا تھا۔
                   ❤️❤️❤️❤️
"جلدی سے ساری تیاری مکمل کر لو کل صبح ہی ہمیں ریلوے اسٹیشن پر دھماکہ کرنا ہے۔"
اس نے اپنے آدمیوں کو ہدایت دی تو وہ سب جلدی سے ہاتھ چلانے لگے۔اچانک ہی ان کے لیڈر کے سینے پر کسی نے گولی چلائی جس کی انہیں آواز تک نہیں آئی تھی۔شائید گن پر سائلینسر لگایا گیا تھا۔
ان سب آدمیوں نے اپنی بندوق سنبھالی اور ادھر ادھر دیکھنے لگے لیکن وہاں پر کوئی بھی نہ تھا۔
"اے تو جا کر دیکھ کون ہے۔۔۔"
اس نے اپنے ایک ساتھی کو کہا تو وہ سامنے موجود بوریوں کی جانب بڑھ گیا لیکن اچانک ہی کسی نے مظبوط بازو اسکی گردن کے گرد لپٹایا اور ایک ہی جھٹکے سے اس کی گردن توڑ دی۔
اپنے سامنے کالے کپڑوں میں موجود چہرہ کالے رومال سے چھپائے اس شخص کو دیکھ کر باقی تین آدمی ہڑبڑا گئے۔
ایک نے اس کو گولی مارنی چاہی لیکن اس سے پہلے ہی کالے کپڑوں والا وہ شخص اس کو گولی مار چکا تھا۔
باقی دونوں جو ہاتھ میں ڈنڈے پکڑ کر کھڑے تھے ان کے ہاتھ اب خوف سے کانپنے لگے۔
"کک ۔۔۔کون ہے تو؟"
ایک شخص نے گھبرا کر پوچھا تو کالے کپڑوں والا شخص اگے آیا اور اسے گردن سے پکڑ لیا۔یہ دیکھ کر دوسرے نے ڈنڈا اسکے سر پر مارا۔
لیکن جواب میں اس نقاب پوش نے اپنی سبز آنکھوں سے اسے گھورا اور ہاتھ میں پکڑی بندوق سے اس کے سر میں گولی ماری۔یہ دیکھ کر وہ آخری شخص بہت زیادہ ڈر گیا۔
"ممم۔۔۔۔معاف کر دو۔۔۔ "
"بہت سے معصوموں کی جان لینے والے تھے تم اور چاہتے ہو کہ میں تمہیں معاف کر دوں۔۔۔۔ہوں۔۔۔جہنم کے شیطان کو سکندر کا سلام کہنا۔۔۔"
اتنا کہہ کر سکندر نے اسکے سر میں بھی گولی مار دی اور بم دھماکے کا وہ سامان اٹھا کر وہاں سے چلا گیا۔
                       ❤️❤️❤️❤️
صبح ہانیہ کی آنکھ کھلی تو پہلی نگاہ راگا پر پڑی جو اپنی چیزیں سمیٹ رہا تھا۔
"آآآ۔۔۔۔آپ کہیں جا رہے ہیں؟"
وانیہ نے اٹھ کر گھبراتے ہوئے پوچھا تو راگا کی نظر اسکی سوجی ہوئی آنکھوں پر پڑی جو اسکے رات بھر رونے کی عنایت تھی۔
"ہاں جا رہا ہوں..."
"سچی۔۔۔!!! ممم۔۔۔میرا مطلب ہے اس وقت؟"
پہلے وانیا نے بہت زیادہ خوشی سے کہا لیکن پھر اس کے گھورنے پر گھبراتے ہوئے پوچھنے لگی۔
"ہاں کچھ دن لگ جائیں گے مجھے تم فکر مت کرو مرجان تمہارے پاس رہے گی۔۔۔۔"
وانیا نے ہاں میں سر ہلایا لیکن اندر ہی اندر اس کے جانے پر وہ افسردہ بھی تھی تو خوش بھی۔اچانک ہی راگا نے اپنے دونوں ہاتھ بیڈ پر رکھے اور وانیا کی جانب جھکا۔
"خوش ہو رہی ہوں میرے جانے پر؟"
وانیہ نے سچ کہتے ہوئے ہاں میں سر ہلا دیا۔اس کی معصوم حرکت پر راگا کے لب مسکرا دیے۔
"تو دعا کرنا کہ تمہارے پاس واپس ہی نہ آؤں بلکہ کسی فوجی کی گولی کا نشانہ۔۔۔۔"
وانیا نے اپنا ہاتھ اسکے ہونٹوں پر رکھ دیا۔
"میں نے ایسا تو نہیں کہا۔۔۔"
وانیا نے نرمی سے کہا تو راگا نے اسکا ہاتھ چوما اور اس سے دور ہو گیا۔
"پھر سے بھاگنے کی حماقت مت کرنا افغان جلیبی اس بار تمہارا شوہر نہیں آئے گا تمہیں بچانے۔۔۔۔"
وانیہ نے ہاں میں سر ہلایا تو راگا اس سے دور ہوتا اپنی چیزیں سمیٹ کر دروازے کی جانب چل دیا۔اسے جاتا دیکھ وانیا نے سکون کا سانس لیا اور خود کو کمبل میں چھپا لیا۔
                        ❤️❤️❤️❤️
"ارے سالار کہاں ہیں وہ کیوں نہیں آئے مجھے لینے؟"
جنت نے حیرت سے جمال کو دیکھتے ہوئے کہا جو اسے اس کے کالج سے سالار کے پاس لے جانے آیا تھا۔
"بس گڑیا زرا مصروف تھے تو مجھے بھیج دیا۔۔۔اب وقت ضائع مت کرو لیٹ ہوگئے تو ایک ایک لمحے کا حساب مانگیں گے بھائی مجھ سے۔۔۔"
جنت نے ہاں میں سر ہلایا اور گاڑی میں بیٹھ گئی۔سالار کے گھر پہنچ کر وہ سیدھا سالار کے کمرے میں اس سے ملنے گئی لیکن سامنے کا منظر دیکھ کر جنت کی سانس تھمنے کو آئی تھی۔
"سالار یہ کیا ہوا آپ کو؟"
جنت نے بے چینی سے اس کے سر پر بندھی پٹی کو دیکھتے ہوئے سوال کیا۔
"کچھ نہیں بس چھوٹا سا ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا۔"
سالار نے مسکرا کر کہا لیکن پٹی پر لگا خون دیکھ کر جنت پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی۔
"جنت میں ٹھیک ہوں کیا ہو گیا ہے یار چپ کر جاؤ۔۔۔"
سالار نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے پاس بیڈ پر بٹھاتے ہوئے کہا۔
"اور اگر زیادہ لگ جاتی تو۔۔۔۔آپ کو کچھ ہو جاتا تو؟"
جنت پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے اپنے خدشات ظاہر کرنے لگی اور سالار اپنی اس متاۓ جان کو گہری نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔
"اگر میں مر جاتا تو کیا ہو جاتا؟"
سالار کی بات پر جنت نے آنسو پونچھ کر اسے گھورا اور اس کے سینے پر مکے برسانے لگی۔
"بہت برے ہیں آپ سلار ملک بہت زیادہ۔۔۔"
اچانک ہی سالار نے اسے کندھوں سے تھام کر اپنے بہت قریب کر لیا تو جنت رونا بھول کر اپنی نم آنکھیں بڑی کیے اسے دیکھنے لگی۔
"بتاؤ جنت کیا ہو جاتا اگر مجھے کچھ ہو جاتا تو؟کیوں ہے تمہیں میری اتنی پرواہ دوستوں کو انسان اس قدر تو نہیں چاہتا۔۔۔"
سالار میں اس کے آنسو پونچھتے ہوئے اس سے  وہ سوال پوچھا جس کا جنت کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔
"مجھے نہیں پتہ بس ایسا لگا کہ آپ کو کچھ ہو جاتا تو میری بھی سانسیں رک جاتیں،ایسا لگا کہ آپ کے دور جانے پر کبھی بھی خوش نہیں رہ پاؤں گی میں۔۔۔۔"
جنت کے جواب پر سالار کے ہونٹوں پر ایک عالیشان مسکراہٹ آئی تھی۔
"ایسے جذبات انسان دوستوں کے لئے تو نہیں رکھتا،یہ جذبات صرف اس کے لئے رکھے جاتے ہیں جنت جسے انسان خود سے بھی زیادہ چاہتا ہو تو بتاؤ جنت کیا تم مجھے چاہتی ہو؟"
سالار کی سوال پر جنت کی پلکیں جھک گئیں اور وہ بس خاموشی سے اپنا لب کترنے لگی۔
"جواب دو مجھے جنت کیا تم بھی محبت کی اس آگ میں جل رہی ہو جس میں سالار ملک ہمیشہ سے جلتا آیا ہے۔۔۔"
سالار نے اپنے انگوٹھے سے اس کا ہونٹ دانتوں سے باہر نکالتے ہوئے پوچھا ۔
"مم۔۔۔۔مجھے نہیں پتہ سالار ۔۔۔۔مجھے کچھ نہیں پتہ بس اتنا پتہ ہے کہ آپ کے بغیر مجھے کچھ اچھا نہیں لگتا،آپ کے دور جانے کا خیال ہی میری ہر خوشی کو ختم کر دیتا ہے،آپ سے دور ہو کر ہر وقت آپ کو یاد کر کے مسکراتی رہتی ہوں ہو سکتا ہے اسے  آپکی زبان میں محبت کہتے ہوں لیکن مجھے اس اس کا نام نہیں پتہ۔۔۔۔"
جنت نے روتے ہوئے کہا اور سالار کا دل کیا کہ خود سے کھائی ہر قسم توڑ کر اسے خود میں چھپا لے لیکن نہیں اسے جنت کی محبت کے ساتھ ساتھ جیت بھی حاصل کرنی تھی۔شایان شاہ کو ہرانا تھا اس نے،انتقام لینا تھا اس سے اور شایان شاہ اس دن ہارے گا جس دن جنت اس کی محبت میں شایان شاہ کو چھوڑ دے گی۔
"یہ محبت نہیں جنت یہ عشق ہے جس کی منزل پر میں پہنچ کر دم لوں گا۔۔۔"
سالار نے اس کی قریب ہوتے ہوئے کہا پھر گھبراہٹ کے مارے اسکی بند آنکھیں دیکھ کر اس سے دور ہو گیا۔
"تم خود مجھ سے آکر کہو گی کہ تمہیں مجھ سے محبّت ہے جنت اور جس دن تم نے مجھے یہ کہا، اس دن کے بعد تم پر صرف میرا حق ہوگا،ہر ایک سے پہلے،ہر ایک سے زیادہ تم مجھے ترجیح دو گی۔یاد رکھنا یہ جنت میری محبت میں تمہیں یہ دنیا بھولنی پڑے گی۔"
سالار نے اس کو گھورتے ہوئے کہا جو آنکھیں بند کیے گہرے گہرے سانس لے رہی تھی۔
"جمال۔۔۔"
سالار کے بلانے پر جمال کمرے میں آیا۔
" گھر واپس چھوڑ آؤ جنت کو۔۔۔اب یہ مجھ سے تب ہی ملے گی جب یہ دل میں چھپے جذباتوں کا بہادری سے سامنا کر پائے گی۔۔۔۔اس سے پہلے اسے میرے سامنے کبھی مت لانا۔۔۔"
جنت حیرت سے منہ کھولے سالار کو دیکھ رہی تھی۔
"سالار۔۔۔"
جنت نے کچھ کہنا چاہا۔
"نہیں جنت اب میں یہ کھیل مزید نہیں کھیلوں گا اگر تمہارے دل میں میرے لیے جذبات ہیں تو تمہیں ان جذبات کا اظہار کرنا ہوگا اور اگر ایسا نہیں کر سکتی تو پھر ہمارے یوں ملنے کا کوئی بھی مقصد نہیں۔"
اتنا کہہ کر سالار نے جمال کوئی اشارہ  کیا تو وہ جنت کا بازو پکڑ کر اسے وہاں سے لے گیا اور جنت بس یہ سوچ رہی تھی کہ اگر کبھی اس نے سالار کو نہیں دیکھا تو کیا وہ زندہ بھی رہ سکے گی۔۔۔
                     ❤️❤️❤️❤️
وانیہ راگا کے جانے پر جتنی خوش تھی اب اتنی ہی افسردہ ہو چکی تھی۔دل تھا کہ گھر سے باہر جائے لیکن اس کی حفاظت کے بغیر ایک قدم اٹھانا بھی وانیا کے لیے محال تھا۔
سارا دن وہ گھر میں بیٹھی اپنے جذبات پر غور کرتی رہی تھی۔وہ پاس تھا تو بھی اس کی جان کا عذاب بنا ہوا تھا اور اب جب اس سے دور چلا گیا تھا تو بھی دل بس اسے ایک جھلک دیکھنے کے لیے تڑپ رہا تھا۔
"وانی کہاں کھویا ہے تم کب سے بلا رہا ہے تمہیں۔۔۔"
مرجان کی آواز پر وانیا اپنے خیالوں کی دنیا سے باہر آئی۔
"تم کب آئی۔۔۔؟"
"جب تم گم سم سا بیٹھا لالہ کو یاد کر رہا تھا۔۔۔"
مرجان نے شرارت سے کہا لیکن وانیا کی پلکیں نم ہو چکی تھی۔
"مجھے سمجھ نہیں آرہا مرجان میں کیا کروں وہ پاس ہوتے ہیں تو ان کے جذبات سے ڈر لگتا ہے اور اب پاس نہیں ہے تو ان کے بغیر کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا۔۔۔۔کیوں مرجان کیوں۔۔۔مجھے وہ اچھے نہیں لگنے چاہیں باقی سب کی طرح ،وہ مجھے برے کیوں نہیں لگتے۔۔۔"
وانیا نے روتے ہوئے پوچھا تو مرجان نے اسے اپنے گلے سے لگا لیا۔
"فکر مت کرو وانیا سب ٹھیک ہو جائے گا تم دونوں ایک دوسرے کے لئے بنا ہے۔چاہے ایک آسمان ہے تو دوسرا زمین۔۔۔لیکن اگر تم دونوں ایک دوسرے کا مقدر نہ ہوتا تو اللہ تعالی تم دونوں کو کبھی بھی ایک نہیں کرتا۔"
مرجان نے اسے پیار سے سمجھایا تو وانیا ہلکا سا ہنس دی۔
"چھوٹی ہو تم مجھ سے اور بڑی بہنوں کی طرح سمجھانے بیٹھ جاتی ہو۔۔۔پتہ ہے تم مجھے بالکل میری ہانی جیسی لگتی ہو۔"
وانیا نے مرجان کے گال کھینچتے ہوئے کہا تو مرجان ہنس دی۔
"کیا بات ہے مرجان آج تو تم بہت زیادہ خوش ہو خیر تو ہے؟"
وانیا کے سوال پر مرجان کا چہرہ سرخی چھلکا کر گلال ہو چکا تھا۔
"مم ۔۔۔ میں تو روز ہی خوش ہوتا ہے آج کیا ہونا تھا؟"
مرجان نے گھبراتے ہوئے کہا۔
"نہیں کوئی تو خاص بات ہے دیکھو میں تمہاری بڑی بہن ہوں نا بتاؤ مجھے۔۔۔"
وانیا نے حکم دیتے ہوئے کہا تو مرجان مزید شرما گئی۔۔۔
"وہ ۔۔۔وہ کل رات انہوں نے مجھے کہا کہ میں بہت خوبصورت ہوں اور میرا بال بھی بہت پیارا ہے۔۔۔۔"
مرجان اتنا کہہ کر یوں شرمائی جیسے نہ جانے کیا ہو گیا ہو۔
"اس وجہ سے تم اتنا شرما رہی ہو؟"
وانیا نے حیرت سے پوچھا۔
"ارے نہیں وہ میں تو ۔۔۔۔"
مرجان فوراً ہی اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپا گئی اب وہ وانیا کو کیا بتاتی کہ کل پہلی بار اس نے اپنے شوہر کا پیار بھرا لمس اپنے گالوں پر اور ہونٹوں پر محسوس کیا تھا۔اسکے ہونٹوں پر ابھی بھی ویرہ کے جنون کا احساس موجود تھا۔
"تم کو نہیں پتہ وانی ہمارا شادی ہوئے ایک سال ہو گیا ہے اور کل پہلی بار انہوں نے مجھ سے اتنے پیار سے بات کیا۔"
مرجان کی بات پر وانیا کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔
"تمہاری سولہ سال کی عمر میں شادی ہو گئی تھی؟"
"ہاں ماڑا ہمارے یہاں شادی جلدی کر دیتا ہے لڑکی کی۔۔۔اسی لیے تو میں انہیں پسند نہیں تھا کیونکہ میں بہت چھوٹا ہے ان سے لیکن۔۔۔کل انہوں نے پہلی بار مجھے چھوا وانی۔۔۔ورنہ وہ تو مجھ سے پیار سے بات بھی نہیں کرتا۔"
یہ بات کہہ کر مرجان پھر سے شرمائی تھی۔
"یعنی ایک سال ہوا ہے تم دونوں کی شادی کو اور تم دونوں کے درمیان کوئی تعلق ۔۔۔۔"
مرجان نے فوراً انکار میں سر ہلا دیا۔
"انٹرسٹنگ۔۔ "
وانیا نے آہستہ سے کہا۔
"پتہ ہے وانیا وہ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہے تب سے محبت کیا ہے ان سے جب محبت کا مطلب بھی نہیں پتہ تھا۔۔۔دنیا کے لیے وہ جیسا بھی ہے میرے لیے جینے کی وجہ ہے وہ وانی۔۔"
مرجان کی بات سن کر وانیا افسردہ ہوئی تھی کیا ہوتا اگر کل کو ویرہ آرمی کے ہاتھ لگ جاتا تو۔۔۔کیا ہونی تھی مرجان کی زندگی ویرہ کے بغیر تو وہ جیتے جی مر جاتی۔
اور اگر ویرہ کے ساتھ راگا بھی پکڑا جاتا تو وانیا کا کیا ہوتا؟کیا وہ جی پاتی اس کے بغیر۔۔۔خود سے یہ سوال کرنے پر ہی وانیہ کی آنکھیں نم ہو چکی تھیں۔
"کیا ہوا وانی؟"
مرجان نے پریشانی سے پوچھا لیکن وانیا نے بس انکار میں سر ہلایا۔ہو وہاں سے کیا بتاتی کہ ہمیشہ قید میں رہنا وانیا کا مقدر بن چکا تھا اگر وہ راگا کی قید سے آزاد ہو بھی جاتی تو بھی اس کا دل اور اس کی زندگی کی ہر خوشی راگا کی قید میں رہتی۔
                     ❤️❤️❤️❤️
سلطان مسکراتے ہوئے اپنے آدمیوں کو دیکھ رہا تھا جو اس کے خلاف آواز اٹھانے والے پولیس والے کو مار رہے تھے۔وہ بے چارہ انصاف کی راہ پر چلنے کی سزا بھگت رہا تھا۔
"سر۔۔۔"
اے کے کی آواز پر سلطان نے ابرو اچکا کر اسے دیکھا۔
"سسس۔۔۔۔سر وہ ہمارا پلین فیل ہو گیا جن لوگوں کو ہم نے ریلوے اسٹیشن پر دھماکہ کرنے بھیجا تھا انہیں۔۔۔اس سکندر نے مار دیا۔۔۔"
اے کے کی بات پر سلطان نے ضبط سے اپنی مٹھیاں بھینچ لیں۔
"کون ہے یہ سکندر اے کے ابھی تک پکڑ کیوں نہیں پا رہے تم اسے؟"
سلطان غصے سے چلایا اور اپنا ہاتھ بہت زور سے دیوار میں مارا۔
"معلوم نہیں سر وہ شخص کہاں سے سوچتا ہے کب کیا کر گزرے پتہ ہی نہیں چلتا خبر تو تب ہوتی ہے جب وہ سب ختم کر چکا ہوتا ہے۔"
اے کے کی بات پر سلطان نے اسے اپنی خطرناک نگاہوں سے گھورا۔
"تمہیں میں نے یہاں تک بے بس ہونے کے لیے نہیں پہنچایا اے کے جتنی جلدی ہو سکے اس سکندر کو پکڑو ورنہ جس گند سے تم آئے تھے اسی گند میں واپس پھینک آؤں گا ۔"
اتنا کہہ کر سلطان آگے بڑھا اور اپنے آدمی کے ہاتھ سے ڈنڈا پکڑ کر خود اس پولیس والے کو ظالمانہ انداز میں مارنے لگا اور تب تک مارا جب تک وہ بیچارا مر نہیں گیا۔

   0
0 Comments